ٹھہر سکو تو ٹھہر جاؤ میرے پہلو میں
وہ دھوپ ہے کہ یہی سایۂ شجر ہے بہت
Related posts
-
آفاق صدیقی
کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں -
عابد جعفری
جزائے کاوشِ تعمیر یہ ملی ہے ہمیں صدائے تیشہ سدا ساتھ گھر میں رہتی ہے